ghalib ki khuwaish stole mens
calligraphy ghalib ki khuwaish stole collection
ghalib ki khuwaish mens stole
ghalib ki khuwaish stole new
ghalib ki khuwaish stole new arrival
ghalib ki khuwaish stole calligraphy

Ghalib Ki Khuwaish Stole

Rs.2,000.00 Rs.1,195.00 SAVE 40%

Color: Blue

Blue
Black

Fabric Material : Polly Lawn
Dimensions : 28/29 width * 73/74 length (inches)

Description : A human is Never Truly Satisfied, and so His/her wants are too Endless. We may Temporary Satisfy some of our Wants but They always Reoccur. Different Wants have Varying Degrees of intensity. 

Presenting Our Article ( Ghalib ki Khuahish Stole ) with Beautifully Designed with Beautiful Words by Mirza Asad-ullah Khan Galib. Where He Described  a Human Behavior very Boldly.

 

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دمبدم نکلے

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچہ سے ہم نکلے

مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

کہاں مے خانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

(مرزا اسداللہ خان غالب)

SKU: AR-000271
Availability : In Stock Pre order Out of stock
Description

Fabric Material : Polly Lawn
Dimensions : 28/29 width * 73/74 length (inches)

Description : A human is Never Truly Satisfied, and so His/her wants are too Endless. We may Temporary Satisfy some of our Wants but They always Reoccur. Different Wants have Varying Degrees of intensity. 

Presenting Our Article ( Ghalib ki Khuahish Stole ) with Beautifully Designed with Beautiful Words by Mirza Asad-ullah Khan Galib. Where He Described  a Human Behavior very Boldly.

 

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دمبدم نکلے

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچہ سے ہم نکلے

مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

کہاں مے خانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

(مرزا اسداللہ خان غالب)

Additional Information
Color

Blue, Black

NOTIFY ME WHEN IN STOCK